#Demand for Justice Aseeran Hunza 14
چھ دن سے دھرنے میں بیٹھی عظیم ماوں اور بہنوں کو سلام۔۔۔۔۔۔لیکن انگریزی میں دانشوریاں جھاڑنے والی عالمی سطح کی خواتین حقوق کی علم بردر کہیں نظر نہیں آئیں
بقلم ارسلان علی
چھ دن تک اس ٹھٹھرتی سردی میں استقامت اور شجاعت کے ساتھ کھڑی رہنے والی میرے ہنزہ کی ماں بہنوں کو دل کی اتھا گہرائیوں سے سلام۔ آپ نے اپنی جراعت کو کردیکھایا۔
ہنزہ کی خواتین اب مثبت سمت میں ڈل رہی ہیں ، وہ کام کردیکھایا جو آج سے کہیں دہائیاں قبل کرنے کی ضرورت تھی، خیر دیر آئید دورست آئید اب ہنزہ کی خواتین کھیل کے میدان اور بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں پر اپنا لوہا منوانے والی میری بہیں اب جدوجہد کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوائیں گے۔
انگریزی میں دانشوریاں جھاڑنے والی بیرون ممالک اور پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ان بین الاقوامی سطح کے سوشلسٹ اور دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کی ٹھیکیدار ہنزہ کی ایکٹیوسٹ خواتین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس مصنوعی اور خوابوں کی دنیا سے نکل کر اسی طرح زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی طرح کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔
گزشتہ چھ دنوں سے جاری دھرنے سے اسیران رہائی کےلئے راہیں ہموار ضرور ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا ڈیولپمنٹ یہ ہوئی کہ یہ دھرنہ صرف وہاں بیٹھنے اور نعرے لگانے کی جگہ نہیں تھی بلکہ ایک درس گاہ کی شکل اختیار کرچکی تھی ، جہاں مرد و خواتین کو سیاسی و شعور تربیت ہر لمحہ بہ لمحہ دیا جاتا تھا۔
میں عوام ہنزہ بالخصوص اور وہ تمام گلگت بلتستان کے باسیوں جنہوں نے لمحہ بہ لمحہ اس دھرنے کی سپورٹ کی سے امید کرتا ہوں اسیران رہائی کمیٹی کی جانب سے اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر اور خطیب مسجد علی علی آباد شیخ موسیٰ کے ذریعے ریاستی اداروں اور ڈکوسلہ نگراں وزراء کے ساتھ ہونے والی تحریری معاہدے سے مایوس نہیں ہوں گے، کیوں کہ جدوجہد چند دن یا ہفتوں کی بات نہیں بلکہ جدوجہد زندگی بھر کا حصہ ہےاور پر امید ہوں کہ جب بھی آئندہ اسی طرح کی جدوجہد کی ایک کال دی جائے گی تو اسی طرح سے یکجہتی اور جذبہ کا اظہار کیا جائے گا۔
واضح رہے یہ دھرنہ کسی سیاسی جماعت کے زیر اہتمام یا تمام اہلیان ہنزہ کی جانب سے کوئی اجتماعی کمیٹی کے زیر اہتمام چلنے والا دھرنہ نہیں تھا بلکہ یہ خالصتاً اسیران کے اہل خانہ اور خونی رشتہ داروں کی بننی رہائی کمیٹی کے زیر اہتمام تھا جن کے پاس دھرنے کو ختم کرنے یا جاری رکھنے کا اختیار تھا نہ کہ وہاں موجود دیگر شرکاء کے پاس یہ اختیار تھا۔
ہنزہ کا نوجوان جو وہاں جذبات سے کام لینے کی کوشش کررہا تھا سے گزارش ہے آنے والے وقتوں میں جانی اور مالی قربانی کےلئے تیار رہیں، ہم نشہ آور چیزیں کھا کر مختلف غیر ضروری معاملات میں شامل ہو کر مرنے کےلئے تو تیار ہیں لیکن کبھی آج تک ہنزہ کے کسی نوجوان نے اپنی اجتماعی حقوق کےلئے اپنی جان قربان نہیں کرسکتے ہیں ۔ وقت اور جغرافیائی خدوخال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ان سب قربانیوں کےلئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
Comments
Post a Comment